ہاں! ہم فیضی ہیں (دعوتِ فکر)
مدارسِ اسلامیہ کی عزت و اہمیت کسی بھی ذی شعور پر مخفی نہیں۔ ربِ قدیر نے جنہیں عقلِ سلیم اور فہمِ صحیح کی دولت سے نوازا ہے، وہ مدارسِ اسلامیہ کی عزت و توقیر بھی کرتے ہیں اور ان کے وجود کو دینِ اسلام کی بقا اور اس کے فروغ کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
بلاشبہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب کبھی مخالفین نے دینِ اسلام کی اصل صورت کو مسخ کرنے کی ناپاک کوشش کی، تب تب انہی مدارسِ اسلامیہ نے دینِ اسلام کے تحفظ و بقا میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، اور تعلیماتِ اسلام کے فروغ میں ناقابلِ فراموش خدمات انجام دی ہیں۔
دنیا کی رنگینیوں اور بوالعجبی سے دُور و نفور ہو کر، ایک مستحکم انداز میں مدارسِ اسلامیہ خدمتِ دینِ متین میں مصروفِ عمل ہیں۔ ملت کی قیادت و رہنمائی، اور صالح معاشرے کی تشکیل میں شب و روز مصروف ہیں۔ اس پُر فتن اور چیلنجز سے بھرپور دور میں، حالات کے نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے، شیرین و تلخ مرحلوں سے ہو کر، بادلِ مخالف کے سامنے سینہ سپر ہو کر، بقائے دین اور تحفظِ انسانیت میں سنگِ میل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
انہی مدارسِ اسلامیہ میں ایک چمکتا دمکتا نام مدرسہ فیض العلوم، جمشید پور کا ہے، جو ریاستِ جھارکھنڈ کا ایک عظیم علمی و دینی مرکز ہے۔ یہ ادارہ برسوں سے علمِ دین کی شمع روشن کیے ہوئے ہے۔ یہ ادارہ امام اہلِ سنت، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ کے عقائد و نظریات کا پابند ہے، اور علامہ ارشد القادری نور اللہ مرقدہ کے خوابوں کی تعبیر ہے۔یہ ادارہ جماعتِ اہلِ سنت کے ترجمان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس عظیم ادارے کی بنیاد رکھنے والی شخصیت بانیِ مساجد و مدارسِ کثیرہ، رئیس القلم، قائد اہلِ سنت حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ ہیں، جن کی ذات ستودہ صفات ہے۔ آپ کا علمی مقام، فکری بصیرت اور دینی غیرت آج بھی اہلِ علم کے دلوں میں زندہ ہے۔ مدرسہ فیض العلوم دراصل آپ کی دُور اندیشی، اخلاص، اور علم دوستی کا ثمرہ ہے۔
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب مدرسہ فیض العلوم کو وقتی طور پر تعلیمی معیار میں کچھ کمی کا سامنا کرنا پڑا، جو کسی بھی ادارے کی تاریخ میں ایک فطری مرحلہ ہو سکتا ہے۔ لیکن اللہ کے فضل و کرم سے، مدرسے کی انتظامیہ کی سنجیدگی اور اساتذہ کی محنت و خلوص کی بدولت، مدرسہ دوبارہ اپنی عظمت و شان کو بحال کرنے میں کامیاب ہوا، اور آج یہ ادارہ پھر سے علم و فن کا درخشاں مینار بن چکا ہے۔
(کون؟ فیض العلوم!)
ہاں ہاں! وہی فیض العلوم جو ملتِ اسلامیہ کے ارمانوں کی خلّد بریں ہے، دبستانِ علم و فن کے خوشہ چیں ، اور "جاروبِ کستول" کا نشیمن ہے۔ باوقار قائدین و عمائدین کی امنگوں کی جولان گاہ ہے۔ درحقیقت یہ مفتیِ اعظم ہند علیہ الرحمہ کے فیضانِ نظر اور قائد اہلِ سنت کے مکتبِ فکر کی کرامت ہے۔ یہاں کے اساتذۂ کرام علوم و فنون میں کمال رکھتے ہیں: کوئی تدریس وتفہیم کا شہنشاہ ہے، تو کوئی تحقیقِ لسان کا ماہر۔ کوئی بحرِ فقہ و فتاویٰ کا شناور ہے، تو کوئی فنی ادب کا تاجور۔کوئی فکر و قلم کا بادشاہ ہے،تو کوئی دعوت و اصلاح کا شاہکار۔
یہاں کے تمام اساتذہ جید اور ذی استعداد ہیں۔ ان کے نام مع تخصصات درج ذیل ہیں:
• صدر المدرسین: ماہر علمِ میراث حضرت مفتی صلاح الدین مصباحی صاحب قبلہ
• شیخ الحدیث: حجۃ الفقہاء مفتی عابد حسین قادری نوری مصباحی صاحب قبلہ
• معلمِ ہمدرد: حضرت مولانا امتیاز مصباحی صاحب قبلہ
• ماہرِ لسان: حضرت مولانا عبدالحنّان فیضی صاحب قبلہ
• ماہرِ درس و تدریس: حضرت مفتی شمس تبریز ازہری صاحب قبلہ
• ماہرِ فقہ: حضرت مفتی ابو ہریرہ مرکزی صاحب قبلہ
• ماہرِ حدیث: حضرت مفتی احتشام ازہری صاحب قبلہ
• ماہرِ مضمون نگاری: حضرت مفتی مقصود علیمی صاحب قبلہ
• ماہرِ ادب: حضرت مفتی عبدالعزیز صاحب قبلہ
• فخر القرا: قاری صداقت حسین ازہری صاحب قبلہ
نیز:
حافظ شمیم صاحب ،حافظ عبدالحمید صاحب ،قاری میکائل صاحب ،قاری ہاشم صاحب کی خدمات بھی لائقِ تحسین ہیں۔
مدرسہ فیض العلوم اپنے معیارِ تعلیم، ممتاز اساتذہ ٔ کرام اور عمدہ انتظام و انصرام کی بنیاد پر ایک الگ اور بلند مقام رکھتا ہے۔ بلاشبہ، عصرِ حاضر میں یہ ادارہ ایک عظیم علمی قلعہ، مرکزِ علم و فن، اور ترجمانِ مسلکِ اعلیٰ حضرت کی حیثیت رکھتا ہے۔
الزبدۃ:
جب فیض العلوم میں اتنے جید اساتذۂ کرام موجود ہیں، اور مدرسہ ہذا اتنی خصوصیات کا حامل ہے، تو کیوں نہ کہا جائے کہ : ہم فیضی ہیں! خاکسار کہتا ہے: فیضیوں ! فخر سے کہو: ہم فیضی ہیں اور اپنی قلمی تخلیقات میں جرأت و محبت سے لکھو ہم فیضی ہیں
